ماہرین صحت کا کہنا ہےکہ 18 سال سے زیادہ عمر کی 20 فیصد عالمی آبادی بلڈ
پریشر کے امراض کی شکار ہے اور اس مرض کو قابو کرنے والی عام ادویہ مریضوں
کے موڈ پر اثر انداز ہوکر انہیں ڈپریشن کی جانب دھکیل سکتی ہیں۔ بلڈ پریشر
کے امراض کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے اور یہ مرض دل کی بیماریوں اور
فالج کی وجہ بن سکتا ہے۔
ایک تازہ تحقیق اور سروے کے بعد ماہرین نے کہا ہے
کہ جو مریض بلڈ پریشر کو معمول پر رکھنے کے لیے بی ٹا بلاکرز اور کیلشیئم
چینل بلاکرز والی دوائیں کھاتے ہیں انہیں عام افراد کے مقابلے میں ڈپریشن
کی وجہ سے اسپتال لے جانے کا دُگنا خطرہ ہوتا ہے۔ یہ تحقیق گلاسگو
یونیورسٹی میں ہوئی جہاں 5 برس تک 40 سے 80 سال تک کے 5 لاکھ سے زائد
مریضوں کا جائزہ لیا گیا جن میں سے ڈیڑھ لاکھ مریضوں کو بلڈ پریشر کے لیے
یا تو اینجیوٹینسن دی گئی، یا بی ٹا بلاکرز، یا پھر کیلشیئم چینل بلاکرز
اور تھائی زائڈ دوائیں دی گئیں جب کہ ایک لاکھ سے زائد افراد کو ان میں سے
کوئی دوا نہیں دی گئی۔
اس کے بعد مریضوں میں موڈ کی خرابی، بائی پولر ڈس
آرڈر اور ڈپریشن وغیرہ کو نوٹ کیا گیا۔
دوائیں دینے کے 3 ماہ کے بعد 299
افراد کو ڈپریشن کی وجہ سے اسپتال لایا گیا لیکن جنہیں بی ٹا بلاکرز اور
کیلشیئم چینل بلاکرز والی دوائیں دی گئیں ان کی دُگنی تعداد ڈپریشن میں
مبتلا ہوئی اور انہیں ہسپتال لایا گیا ۔ اس کے علاوہ جن مریضوں نے تھائی
زائید ڈی یوریٹکس دوائیں کھائی تھیں ان میں بھی ڈپریشن کے عین وہی آثار
دیکھے گئے جو بی ٹا اور کیلشیئم بلاکرز کھانے والے مریضوں میں تھیں۔ ماہرین
نے اس تحقیق کے بعد بلڈ پریشر کے خلاف ادویہ پر نظرثانی کرنے پر زور دیا
ہے۔ دوسری جانب ای سی ای انہبٹرز (اینجیوٹینسن کنورٹنگ اینزائم) اور اے آر
بی (اینجیوٹینسن ٹو بی ٹا بلاکرز) دوائیں درحقیقت ڈپریشن اور مایوسی کو کم
کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈپریشن اور امراضِ قلب کا بھی باہمی
تعلق ہوتا ہے۔ اس سے قبل ایک مطالعے سے انکشاف ہوا ہے
کہ ہارٹ اٹیک اور دل
کا مریض بننے کے بعد لوگ اداسی اور ڈپریشن کے زیادہ شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی
طرح ایک صحت مند آدمی بھی ڈپریشن میں مسلسل رہتے ہوئے دل کا مریض بھی بن
جاتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ بلڈ پریشر کی دوا اور ڈپریشن میں بھی باہمی تعلق
ہوتا ہے۔